تحریر: ابو احمر
ہماری یاد داشت بہت کمزور ہے، ہمیں تکلیف کا احساس وقتی ہوتا ہے اور اگر وہ درد ہمارا اپنا نا ہو تو ہم ۳ دن میں بھلا کر آگے بڑھ جاتے ہیں، ہم نے1999 کا جاوید اقبال کا کیس بھلا دیا جس میں وہ ذیادتی کے بعد بچوں کو تیزاب میں پھینک دیا کرتا تھا، ، ہم نے انسانیت کی تذلیل تھر کے ریگستانوں سے شہروں کے رنگوں تک ہر جگہ ہوتے دیکھی ہے۔ قصور میں 300 کے قریب بچوں کی زیادتی کی ویڈیوز بنائی گئیں اور پھر انہیں قتل کردیا گیا ان ویڈیوز کو ڈالرز میں دنیا بھر میں بیچا گیا، کچھ دن واویلا ہوا یہ بھی مشہور ہوا کہ اس کے پیچھے کسی ایم پی اے کا ہاتھ ہے، اس کے بعد ہم نے موم بتیوں کے بجھتے ہی واقعہ بھلا دیا، ہم نے تھر کے ریگستانوں میں سسکتے بچوں کو بھلادیا، ہم نے انصاف کے لئے سسکتے ماں باپ کو دلاسہ دیا، کچھ دن ان کے درد کو اپنا درد مانا، اس کے بعد آگے چل دیے، مگر ماں باپ کہاں چلے؟؟ وہ تو وہیں ہیں آج بھی۔۔ان کی آنکھوں کی بینائیاں شاید اب صرف قاتلوں کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنے کے لئے رہ گئی ہیں، انکی سماعتیں شاید اسلئے ہیں کہ کوئی تو ان کی داد رسی کرے، اور سانسیں اسلئے چلتی ہیں کہ شاید کوئی آئے اور ان کو انصاف دلائے، مگر بےحسی ایسی کہ عرش سے فرش تک ہنوق ہو کر ہمیں دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانوں کے قافلے گزرتے ہیں تو راستے بند کردئیے جاتے ہیں کہ کوئی آہ بکا سن کر انکے سوئے دل نا جاگ جائیں، مگر کب تک ہم زینب اور ایسے کئی بچوں کی لاشوں کو اٹھاتے رہینگے؟ آخر کب تک ہم کبھی بھوک سے مرجانے والے بچوں کو کاندھے دیتے رہینگے کب تک کسی جنسی درندے کی بھوک و حوس میں نوچ لئے جانے والے بچے کے تکڑے سمیٹتے رہینگے، آخر کب تک ہم ہی اور ہم ہی قتل ہوتے رہینگے، انصاف آخر کب دہلیز کو چھو کر حق کی ازان دیگا، گزرے کل کی داستانیں طویل بلکہ بہت طویل بھی ہیں اور درد ناک بھی، آج کا قصہ زینب ہے اور آنے والا کل؟
مگر کیا کریں ہماری یاد داشت بہت کمزور ہے
ہمیں تکلیف کا احساس وقتی ہوتا ہے اور اگر وہ درد ہمارا اپنا نا ہو تو ہم ۳ دن میں بھلا کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔