پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں نے جاسوسی کے کھیل میں اس وقت کھلبلی مچا کر دنیا کے بڑے بڑے اسپائی اداروں کو حیران کر دیا جب 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے بھارتی بحریہ کے ایک حاضر سروس ہائی پروفائل آفیسر کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو گرفتار کیا۔ جو بلوچستان و کراچی کے مختلف علاقوں میں والی دہشت گردانہ کارروائیوں کا سرغنہ تھا۔ اور اس بات کا اعتراف بھارتی جاسوس نے ابتدائی تفتیش میں کیا کہ وہ بھارتی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے اور بھارتی خفیہ ایجنسی را کی طرف سے بلوچستان میں تعینات تھا۔
کلبھوشن یادیو جاسوس ہونے کے سبب جانتا تھا کہ اعتراف کرنے اور اپنی حقیقی شناخت بتانے سے انویسٹی گیشن میں کافی حد تک چھوٹ مل سکتی ہے۔ اس لیے کلبھوشن یادیو نے دوران تفتیش سب کچھ سچ سچ بتا کر اپنے عہدے کے مطابق پاکستانی حکام سے مکمل رعایت سمیٹی۔
کلبھوشن یادیو کے تمام اعترافی بیانات اور شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے آرمی عدالت نے 10 اپریل 2017 کے دن اس بھارتی جاسوس کو سزائے موت سنا دی گئی جس کے بعد کمانڈر کلبھوشن یادیو نے پاکستانی حکام سے درخواست کی کہ مجھے میری اہلیہ اور والدہ سے ملنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جس پر پاکستانی حکام نے درخواست قبول کرتے ہوئے فقط انسانیت اور جذبہ خیر سگالی کے تحت 10 نومبر 2017 کو یہ اعلان کیا کہ کمانڈر کلبھوشن یادیو کی اس کے اہل خانہ سے ملاقات کروائی جائے گی۔
اور اس ملاقات کے لیے 25 دسمبر 2017 کا دن مقرر پایا۔ اور اسی دن کلبھوشن کی اہلیہ اور والدہ امارات ایئر لائن کی فلائٹ نمبر EK-612 کے ذریعے براستہ دبئی بینظیر بھٹو انٹر نیشنل ائیر پورٹ اسلام آباد پہنچیں۔ جہاں پر سیکیورٹی کے سخت اقدامات تھے کیونکہ پاکستانی ادارے اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ بھارت اپنی شیطانی ذہنیت کے سبب اس کہانی کو نیا موڑ دینے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ خیر دونوں عورتوں کو سخت حفاظتی حصار میں ایئر پورٹ سے دفتر خارجہ لے جایا گیا۔ جہاں پر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر دونوں خواتین کے کپڑے تبدیل کروا کر اس ملاقات کے لیے تیار کیے گئے خصوصی کنٹینر میں تقریبا 40 منٹ کے دورانیے پر محیط ملاقات کروائی گئی جس کی گفتگو ہر زاویے سے ریکارڈ اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کی جا رہی تھی۔
ملاقات سے قبل اور بعد میں دونوں خواتین نے میڈیا سے بات کرنے پر معذرت کر لی شاید بھارتی حکومت اور ایجنسیوں نے ان کے منہ پر تالے لگا دیئے تھے۔ حالانکہ ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے بتایا کہ پاکستان چاہتا تھا کہ یہ میڈیا سے بات کریں۔ لیکن کلبھوشن یادیو کی والدہ نے ملاقات کروانے پر پاکستانی حکام کا شکریہ ادا کرنے پر ہی اکتفا کیا۔
اس کلبھوشن یادیو کی اہلیہ اور والدہ عمان ایئر لائن کی فلائٹ 346 کے ذریعے مسقط پہنچیں جہاں سے ایئر انڈیا کی فلائٹ نمبر 974 سے انہیں دہلی لیجایا گیا۔
کمانڈر کلبھوشن یادیو کی ان کے اہل خانہ سے ملاقات فقط انسانی ہمدردی اور ان کی خصوصی درخواست کی بنیاد پر کروائی گئی تھی لیکن بھارتی میڈیا نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے ہمارے اس امر میں سے بھی کیڑے نکالنے شروع کر دیئے۔ اور سارا دن ٹی وی چینلز پر وہ واویلا کیا بس اللہ کی پناہ۔
بھارتی میڈیا کے پروپیگنڈا میں بار بار کلبھوشن پر تشدد کی بات دہرائی جاتی رہی جس کا سرے سے ہی سچائی کے ساتھ دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ کیونکہ اگر مجرم اپنے گناہ خود قبول کر لے تو اس پر ٹارچر نہیں کیا جاتا جبکہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ کے حاضر سروس کمانڈر رینک کے آفیسر ہیں اور ان عہدوں کے افراد کے ساتھ ویسے بھی رعایت برتی جاتی ہے۔
لیکن اگر ہم فرض کریں کہ بلوچستان و کراچی میں ہزاروں بے گناہ پاکستانیوں کے قاتل اور خود اعتراف کرنے والے دہشت گرد کی اگر چھترول ہوئی بھی ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟ کیونکہ عراق جنگ کے بعد ابو غریب نامی جیل میں مسلمان قیدیوں کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز سلوک جس میں ان قیدیوں پر کتے چھوڑے گئے ان پر گندگی پھینکی گئی ان کے جسمانی عضو کو بیدردی سے کاٹا گیا ان کو برہنہ حالت میں الٹا لٹکایا گیا نیز یہ کہ درندگی کا کوئی حربہ ایسا نہیں تھا جو امریکی فوجیوں نے ان قیدیوں پر نہیں آزمایا۔
گوانتا ناموبے کی درندگی درندگی اور وحشت سے ساری دنیا بخوبی واقف ہے اس کے علاوہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستانی فوجیوں کے بھارتی جیلوں میں انتہائی تکلیف دہ اور انسانیت سوز تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ قیدی بعد ازاں معاہدے کے پیش نظر اپنے وطن تو لوٹ آئے تھے لیکن واپسی پر کسی کا ہاتھ نہیں تھا تو کوئی ایک ٹانگ پر چل رہا تھا جبکہ کچھ اپنی زبانیں کٹوا چکے تھے۔
تو انسانیت کا راگ الاپنے والا بھارت کس منہ سے کلبھوشن پر تشدد کی بات کر رہا ہے جبکہ پاکستانی حکام نے کمانڈر کلبھوشن یادیو کو ہر طرح کی رعایت ہمدردی اور انسانی ہمدردی سے نوازا ہے۔ "کمانڈر کلبھوشن یادیو کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات" اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
قلم کار: رمیض اکبر خاں میئو
No comments:
Post a Comment